نثار تیری چہل پہل
پر ہزار عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
وجہ
تسمیہ:
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاول شریف ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا۔ یہ مہینہ فیوضات و برکات کے اعتبار سے افضل ہے کہ باعث تخلیق کائنات رحمۃ اللعالمین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا میں قدم رنجہ فرمایا۔ ١٢ ربیع الاول شریف بروز پیر، مکۃ المکرمہ کے محلہ بنی ہاشم میں آپ کی ولادت باسعادت صبح صادق کے وقت ہوئی۔ ١٢ ربیع الاول ہی میں آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے۔ اسی ماہ کی دس تاریخ کو محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین سیدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا تھا۔
مشائخ عظام اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت ولادت باسعادت لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے۔ کیوں کہ لیلۃ القدر میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ولادت پاک کے وقت خود رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ لیلۃ القدر میں صرف امتِ مسلمہ پر فضل و کرم ہوتا ہے اور شب عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات پر اپنا فضل و کرم فرمایا ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے کہ
وَمَا اَرْ سَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃٌ لِّلْعٰالَمِیْنَ
بارھویں ربیع الاول مبارک کو یعنی ولادت پاک کے دن خوشی و مسرت کا اظہار کرنا۔ مساکین کو کھانا کھلانا۔ اور میلاد شریف کا جلوس نکالنا اور جلسے منعقد کرنا اور کثرت سے درود شریف پڑھنا بڑا ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام سال امن و امان عطا فرمائے گا اور اس کے تمام جائز مقاصد پورے فرمائے گا۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ اس ماہ مبارک میں گنبد خضرا کی شبیہ والے اور صلوٰۃ وسلام لکھے ہوئے سبز پرچم لہرانے چاہئیں اور بارہویں تاریخ کو بالخصوص جلوس میلاد شریف اور مجالس منعقد کیا کریں (ماثبت من السنۃ)
حکایت:
ابو لہب جو مشہور کافر تھا اور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ میں چچا تھا ۔ جب رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک ہوئی تو ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے آپ کی ولادت باسعادت کی خوش خبری اپنے مالک ابو لہب کو سنائی ۔ تو ابولہب نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ولاد ت کی خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کردیا۔
جب ابو لہب مرگیا تو کسی نے خواب میں دیکھا اور حال دریافت کیا۔ تو اس نے کہا کہ کفر کی وجہ سے دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوں مگر اتنی بات ہے کہ ہر پیر کی رات عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے۔ اور جس انگلی کے اشارے سے میں نے اپنی لونڈی کو آزاد کیا تھا اس سے مجھے پانی ملتا ہے جب میں انگلی چوستا ہوں ۔
ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب ابو لہب کافر (جس کی مذمت میں سورہ لہب نازل ہوئی) کو یہ انعام ملا تو بتاؤ اس مسلمان کو کیا صلہ ملے گا جو اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی منائے۔ اس کی جزاء اللہ کریم سے یہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے اسے جنات النعیم میں داخل فرمائے گا ۔ الحمدللہ ربّ العالمین ۔
میلاد پاک کرنا اور اس سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے اور میلاد پاک کا ثبوت قرآن مجید، احادیث شریفہ اور اقوال بزرگانِ دین سے ہے۔ میلاد شریف میں ہزاروں برکتیں ہیں۔ اس کو بدعت کہنا دین سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاول شریف ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا۔ یہ مہینہ فیوضات و برکات کے اعتبار سے افضل ہے کہ باعث تخلیق کائنات رحمۃ اللعالمین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا میں قدم رنجہ فرمایا۔ ١٢ ربیع الاول شریف بروز پیر، مکۃ المکرمہ کے محلہ بنی ہاشم میں آپ کی ولادت باسعادت صبح صادق کے وقت ہوئی۔ ١٢ ربیع الاول ہی میں آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے۔ اسی ماہ کی دس تاریخ کو محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین سیدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا تھا۔
مشائخ عظام اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت ولادت باسعادت لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے۔ کیوں کہ لیلۃ القدر میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ولادت پاک کے وقت خود رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ لیلۃ القدر میں صرف امتِ مسلمہ پر فضل و کرم ہوتا ہے اور شب عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات پر اپنا فضل و کرم فرمایا ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے کہ
وَمَا اَرْ سَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃٌ لِّلْعٰالَمِیْنَ
بارھویں ربیع الاول مبارک کو یعنی ولادت پاک کے دن خوشی و مسرت کا اظہار کرنا۔ مساکین کو کھانا کھلانا۔ اور میلاد شریف کا جلوس نکالنا اور جلسے منعقد کرنا اور کثرت سے درود شریف پڑھنا بڑا ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام سال امن و امان عطا فرمائے گا اور اس کے تمام جائز مقاصد پورے فرمائے گا۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ اس ماہ مبارک میں گنبد خضرا کی شبیہ والے اور صلوٰۃ وسلام لکھے ہوئے سبز پرچم لہرانے چاہئیں اور بارہویں تاریخ کو بالخصوص جلوس میلاد شریف اور مجالس منعقد کیا کریں (ماثبت من السنۃ)
حکایت:
ابو لہب جو مشہور کافر تھا اور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ میں چچا تھا ۔ جب رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک ہوئی تو ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے آپ کی ولادت باسعادت کی خوش خبری اپنے مالک ابو لہب کو سنائی ۔ تو ابولہب نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ولاد ت کی خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کردیا۔
جب ابو لہب مرگیا تو کسی نے خواب میں دیکھا اور حال دریافت کیا۔ تو اس نے کہا کہ کفر کی وجہ سے دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوں مگر اتنی بات ہے کہ ہر پیر کی رات عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے۔ اور جس انگلی کے اشارے سے میں نے اپنی لونڈی کو آزاد کیا تھا اس سے مجھے پانی ملتا ہے جب میں انگلی چوستا ہوں ۔
ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب ابو لہب کافر (جس کی مذمت میں سورہ لہب نازل ہوئی) کو یہ انعام ملا تو بتاؤ اس مسلمان کو کیا صلہ ملے گا جو اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی منائے۔ اس کی جزاء اللہ کریم سے یہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے اسے جنات النعیم میں داخل فرمائے گا ۔ الحمدللہ ربّ العالمین ۔
میلاد پاک کرنا اور اس سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے اور میلاد پاک کا ثبوت قرآن مجید، احادیث شریفہ اور اقوال بزرگانِ دین سے ہے۔ میلاد شریف میں ہزاروں برکتیں ہیں۔ اس کو بدعت کہنا دین سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔
محفل میلاد کی
حقیقت:
حقیقت صرف یہ ہے کہ مسلمان ایک جگہ جمع ہوں، سب محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہوں اور صحیح العقیدہ ، سنی علماء یا کوئی ایک عالم دین مسلمانوں کے سامنے حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک، آپ کے معجزات، آپ کے اخلاق کریمہ، فضائل اور مناقب صحیح روایات کے ساتھ بیان کرے۔ اور آخر میں بارگاہِ رسالت میں درود و سلام با ادب کھڑے ہوکر پیش کریں۔ اگر توفیق ہو تو شیرینی پر فاتحہ دلا کر فقراء و مساکین کو کھلائیں۔ احباب میں تقیسم کریں پھر اپنی تمام حاجتوں کیلئے دعا کریں۔ یہ تمام امور قرآن و سنت اور علمائے امت کے اقوال سے ثابت ہیں صرف اللہ جل شانہ، کی ہدایت کی ضرورت ہے۔
انعقادِ میلاد، اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے:
محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد شریف خود خالق اکبر جل شانہ، نے بیان کیا ہے ۔
لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ الرَّحِیْم (پ ١١ سورۃ توبہ ١٢٨)
ترجمہ: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے ہیں اور مسلمانوں پر کمال مہربان (کنزالایمان)
اس آیت شریفہ میں پہلے اللہ جل شانہ، نے فرمایا کہ ''مسلمانوں تمہارے پاس عظمت والے رسول تشریف لائے'' یہاں تو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ بیان فرمائی پھر فرمایا کہ ''وہ رسول تم میں سے ہیں'' اس میں اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب شریف بیان فرمایا ہے پھر فرمایا ''تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے اور مسلمانوں پر کرم فرمانے والے مہربان ہیں'' یہاں اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان فرمائی۔
میلاد ِ مروجہ میں یہی تین باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ سرکار ابد قرارا کا میلاد شریف بیان کرنا سنت الٰہیہ ہے۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری دلیل:
اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَا ئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَ وَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَۃً مِّنْکَ ط (پ ٧، سورۃ المائدہ، ١١٤)
ترجمہ: اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی ۔(کنزالایمان)
مندرجہ بالا دعا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہے کہ انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک خوانِ نعمت اللہ کی نشانی کے طور پر نازل ہونے کی دعا کی ، اور نزول آیت و خوانِ نعمت کو اپنے لیے اور بعد میں آنے والوں یومِ عید قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ خوانِ نعمت کے نزول کے دن ''اتوار'' کو دنیائے عیسائیت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس دن روز مرّہ کے کام کاج چھوڑ کر بطور تعطیل مناتی ہے ۔
حقیقت صرف یہ ہے کہ مسلمان ایک جگہ جمع ہوں، سب محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہوں اور صحیح العقیدہ ، سنی علماء یا کوئی ایک عالم دین مسلمانوں کے سامنے حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک، آپ کے معجزات، آپ کے اخلاق کریمہ، فضائل اور مناقب صحیح روایات کے ساتھ بیان کرے۔ اور آخر میں بارگاہِ رسالت میں درود و سلام با ادب کھڑے ہوکر پیش کریں۔ اگر توفیق ہو تو شیرینی پر فاتحہ دلا کر فقراء و مساکین کو کھلائیں۔ احباب میں تقیسم کریں پھر اپنی تمام حاجتوں کیلئے دعا کریں۔ یہ تمام امور قرآن و سنت اور علمائے امت کے اقوال سے ثابت ہیں صرف اللہ جل شانہ، کی ہدایت کی ضرورت ہے۔
انعقادِ میلاد، اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے:
محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد شریف خود خالق اکبر جل شانہ، نے بیان کیا ہے ۔
لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ الرَّحِیْم (پ ١١ سورۃ توبہ ١٢٨)
ترجمہ: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے ہیں اور مسلمانوں پر کمال مہربان (کنزالایمان)
اس آیت شریفہ میں پہلے اللہ جل شانہ، نے فرمایا کہ ''مسلمانوں تمہارے پاس عظمت والے رسول تشریف لائے'' یہاں تو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ بیان فرمائی پھر فرمایا کہ ''وہ رسول تم میں سے ہیں'' اس میں اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب شریف بیان فرمایا ہے پھر فرمایا ''تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے اور مسلمانوں پر کرم فرمانے والے مہربان ہیں'' یہاں اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان فرمائی۔
میلاد ِ مروجہ میں یہی تین باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ سرکار ابد قرارا کا میلاد شریف بیان کرنا سنت الٰہیہ ہے۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری دلیل:
اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَا ئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَ وَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَۃً مِّنْکَ ط (پ ٧، سورۃ المائدہ، ١١٤)
ترجمہ: اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی ۔(کنزالایمان)
مندرجہ بالا دعا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہے کہ انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک خوانِ نعمت اللہ کی نشانی کے طور پر نازل ہونے کی دعا کی ، اور نزول آیت و خوانِ نعمت کو اپنے لیے اور بعد میں آنے والوں یومِ عید قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ خوانِ نعمت کے نزول کے دن ''اتوار'' کو دنیائے عیسائیت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس دن روز مرّہ کے کام کاج چھوڑ کر بطور تعطیل مناتی ہے ۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری دلیل:
اللہ تعالیٰ حکم فرما رہا ہے ،
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (پ ١١، سورۃ یونس، ٥٨)
ترجمہ: تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ، اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں، وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے (کنزالایمان)
مفسرینِ کرام مثلاً علامہ ابن جوزی (م ۔٥٩٧ھ) ، امام جلال الدین سیوطی (م۔ ٩١١ھ) علامہ محمود آلوسی (م۔ ١٢٧٠ھ) اور دیگر نے متذکرہ آیت مقدسہ کی تفسیر میں ''فضل اور رحمت'' سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مراد لیا ہے (حوالے کیلئے دیکھیں: زاد المسیر، جلد ٤، صفحہ ٤٠۔ تفسیر درِّ منثور ، جلد ٤، صفحہ ٣٦٨۔ تفسیر روح المعانی ، جلد ٦، صفحہ ٢٠٥) مفسرینِ کرام کی وضاحت و صراحت کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے عموم میں کائنات اور اس کے لوازمات بھی شمار ہونگے لیکن فضل و رحمت سے مطلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مراد ہوگی کہ جملہ کائنات کی نعمتیں اسی نعمتِ عظمیٰ کے طفیل ہیں اور اس ذات کی تشریف آوری کا یوم بھی فضل و رحمت سے معمور ہے، پس ثابت ہوا کہ یومِ میلاد، آپ ہی کی ذاتِ با برکات کے سبب اس قابل ہوا کہ اسی دن اللہ کے حکم کے مطابق خوشی منائی جائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میلاد کی خوشیوں کےلئے یوم کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
قارئین کرام! اگر قرآنِ مجید سے مزید دلائل پیش کئے جائیں تو عرض ہے اول تا آخر مکمل قرآن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اور صفات بیان کرتا ہے، پارہ ٣، سورۃ آلِ عمران، آیات ٨١ اور٨٢ میں اس مجلس میلاد کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے عالمِ ارواح میں انبیاءِ کرام کو جمع کرکے منعقد فرمائی۔
میلاد بیان کرنا سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
بعض لوگ لا علمی کی بنا پر میلاد شریف کا انکار کردیتے ہیں ۔ حالانکہ محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا میلاد بیان کیا ہے۔ سیدنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں کہ سید العرب و العجم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ کسی گستاخ نے آپ کے نسب شریف میں طعن کیا ہے تو ،
فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ مَنْ اَنَا فَقَا لُوْ اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔۔ قَالَ اَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدُ الْمُطَّلِبْ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ ثُمَّ جَعَلَہُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ فِرْقَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ قَبِیْلَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ بُیُوْتًا فَاَنَا خَیْرُ ہُمْ نَفْسًا وَخَیْرُہُمْ بَیْتًا (رواہ الترمذی ، مشکوٰۃ شریف رضی اللہ تعالی عنہ ٥١٣)
ترجمہ: پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں کون ہوں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ فرمایا میں عبدالمطلب کے بیٹے کا بیٹا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی ان میں سب سے بہتر مجھے بنایا پھر مخلوق کے دو گروہ کئے ان میں مجھے بہتر بنایا پھر ان کے قبیلے کئے اور مجھے بہتر قبیلہ بنایا پھر ان کے گھرانے بنائے مجھے ان میں بہتر بنایا تو میں ان سب میں اپنی ذات کے اعتبار اور گھرانے کے اعتبار سے بہتر ہوں۔
اس حدیث شریف سے ثابت ہو اکہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود محفلِ میلاد منعقد کی جس میں اپنا حسب و نسب بیان فرمایا ۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ محفل میلاد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس مجلس و محفل میں ان لوگوں کا رد کیا جائے جو آپ کی بدگوئی کرتے ہوں۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
سارے اچھوں میں اچھا سمجھئے جسے
ہے اس اچھے سے اچھا ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم
سارے اونچوں سے اونچا سمجھئے جسے
ہے اس اونچے سے اونچا ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم
تعیّن تاریخ پر قرآنی دلیل:
وَزَکِّرْہُمْ بِاَ یَّامِ اللّٰہِ ط (پ ١٣۔ سورۃ ابراہیم)
اے موسیٰ ان کو یاد دلاؤ اللہ تعالیٰ کے دن
ہر عام و خاص جانتا ہے کہ ہر دن اور رات اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ پھر اللہ کے دنوں سے کیا مراد ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ ان دنوں سے مراد خدا تعالیٰ کے وہ مخصوص دن ہیں جن میں اس کی نعمتیں بندوں پر نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ اس آیت کریمہ میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ آپ اپنی قوم کو وہ دن یاد دلائیں جن میں اللہ جل شانہ، نے بنی اسرائیل پر من و سلویٰ نازل فرمایا۔
مقام غوریہ ہے کہ اگر من و سلوٰی کے نزول کا دن بنی اسرائیل کو منانے کا حکم ہوتا ہے تو آقائے دوجہاں سید کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پاک (جو تمام نعمتوں میں اعلیٰ اور افضل ہے) کا دن بطور عید منانا، اس کی خوشی میں جلوس نکالنا، جلسے منعقد کرنا ، مساکین و فقراء کے لئے کھانا تقسیم کرناکیوں کر بدعت و حرام ہوسکتا ہے؟
حدیث شریف سے تعیّن یوم پر دلیل:
عَنْ اَبِیْ قَتَا دَۃ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْاَثْنَیْنِ فَقَالَ فِیْہِ وُلِدْتُ وَفِیْہِ اُنْزِلَ عَلَیَّ (مشکوٰۃ صفحہ ١٧٩)
ترجمہ: سیدنا حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اسی دن پیدا ہوا۔ اور اسی روز مجھ پر قرآن نازل ہوا۔
اس حدیث شریف نے واضح کردیا کہ کسی دن کا تعین و تقرر کرنا ناجائز نہیں ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بروز پیر دو نعمتیں نازل فرمائی گئی تھیں ایک ولادت مقدسہ اور دوسرے نزول قرآن، اسی لئے آپ نے پیر کے دن کو روزہ رکھنے کے معیّن فرمایا۔
ماہِ ربیع الاول شریف کیلئے خصوصی ہدایات:
ربیع الاول شریف کے مقدس مہینے میں حصول برکات کیلئے، عبادات کی کثرت (نماز، روزہ اور صدقات و خیرات) کیجئے۔ گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام اس مہینے میں کرنا چاہئے، جھوٹ ، غیبت، چغلی، ایذا رسانی، الزام تراشی، غصہ و برہمی وغیرہ سے اپنی ذات کو آلودہ نہ کیجئے، عید میلاد النبی ؐ کے دن اپنے چہروں پر مسکراہٹ سجائے رکھئے، کسی سے بھی (اپنا ہو یا پرایا) جھگڑا کرنے سے اجتناب کیجئے۔
ایک خاص تحفہ:
ماہ ربیع الاول شریف کی کسی بھی جمعرا ت کے دن یا شبِ جمعہ گلاب کے چند پھول لے کر اپنے گھر میں باوضو ہوکر بیٹھیں، پھولوں کو سامنے رکھیں، درود شریف تین مرتبہ پڑھیں پھر
اَللّهُ نَاصِرٌ ۔۔۔۔۔۔ اَللّٰهُ حَافِظٌ ۔۔۔۔۔۔ اللّٰهُ الصَّمَد
٣١٣ مرتبہ پڑھیں اور تین مرتبہ درود شریف پڑھ کر پھولوں پر دم کردیں، اور یہ پھول مٹھائی وغیرہ کے ساتھ ملا کر کھالیں، مشائخ سے منقول ہے کہ جو ایسا کرے گا پورے سال بھر رزق میں برکت ہوگی، مفلسی قریب نہیں آئے گی۔
ماہِ ربیع الاول میں کائنات کا اہم ترین اور مبارک واقعہ
١٢ ربیع الاول شریف عین صبح صادق کے وقت آقائے دوجہاں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دنیا میں تشریف آوری پیر کا دن ، ٢٢ اپریل ٥٧١ء ۔۔۔۔۔۔ ٥٣ قبل ہجری ۔۔۔۔۔۔ ١١ماہ بشینس ٣٦٧٥ طوفان نوح ۔۔۔۔۔۔ یکم جیٹھ ٣٦٧٢ کُل جگ ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ ماہ ہفتم ٢٥٨٥ ابراہیمی ۔۔۔۔۔۔ یکم جیٹھ ٦٢٨ بکرمی شمسی ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ نسیان ٨٣٣٢ خلیقہ یہودی ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ نیسان ٨٢٢ سکندری
ماہ ربیع الاو ل میں
وفات پانے والے صحابہ کرام و بزرگانِ دین
یکم ربیع الاول
٭حضرت مولانا محمد زاہدخشی ۔۔۔۔۔۔ ٩٣٦ھ ٭حضرت خواجہ محمد زاہد سندھی ۔۔۔۔۔۔ ٩٤٤ھ٭حضرت شیخ عبدالرشید جالندھری ۔۔۔۔۔۔ ١١٢٠ھ٭٭حضرت سید محمد سلیمان اشرف بہاری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٥٨ھ٭فاضلِ کبیر مولانا برکات احمد بن دائم علی حنفی ٹونکی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٥ھ یا ١٣٤٧ھ
٢ ربیع الاول
٭ حضرت شاہ احمد سعید مجددی دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٧٧ھ٭ شیر ربّانی حضرت میاں شیر محمد شرق پوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٧ھ
٣ ربیع الاول
٭حضرت خواجہ فضیل بن عیاض موسیٰ صفات ۔۔۔۔۔۔ ١٨٧ھ٭حضرت خواجہ بزرگ بہاؤالدین محمد نقشبند بخاری (روحِ رواں سلسلہ نقشبندیہ) ۔۔۔۔۔۔ ٧٩١ھ/١٣٨٩ء ٭حضرت شاہ رضی الدین علی لالا ۔۔۔۔۔۔ ٦٤٢ھ٭حضرت شاہ عبدالواحد چشتی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٧٥ھ ٭حضرت سید معین الدین کڑوی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٠٤ھ ٭پیر عبداللہ جان سرہندی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٩٣ھ
٤ ربیع الاول
٭حضرت خواجہ یوسف بن محمد سمعانی ۔۔۔۔۔۔ ٤٦٩ھ ٭حضرت ابو علی فضیل فارمدی طوسی ۔۔۔۔۔۔ ٤٧٧ھ٭حضرت ملا نور اللہ مشہور بہ نور بابا ۔۔۔۔۔۔ ١١٩٥ھ ٭خواجہ توکل شاہ انبالوی ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٥ھ ٭شہید اہلسنّت، مناظر اسلام مولانا محمد اکرم رضوی شہید (گوجرانوالہ) ٭حضرت شیخ ہندی لاہوری ٭ مولانا معین الدین کروی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٠٤ھ٭ علامہ مولانا غلام احمد بن شیخ احمد حنفی کوٹی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٢٥ھ
٥ ربیع الاول
٭ شہادت حضرت ابی محمد امام حسن مجتبیٰ ۔۔۔۔۔۔ ٤٩ھ ٭حضرت شیخ حمزہ چشتی جونپوری ۔۔۔۔۔۔ ٩٥٨ھ ٭حضرت سیدنا یوسف جمیل اللہ ٭شیخ کبیر چشتی
٦ ربیع الاول
٭حضرت شاہ عبداللہ چشتی صفی پوری ۔۔۔۔۔۔ ١١٦٣ھ ٭حضرت زرزری زر بخش دولہا (خلد آباد) ٭حضرت شیخ العلما گھوسی ٭حضرت علی بن عبداللہ بن نور اللہ حسینی گجراتی ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٣ھ
٧ ربیع الاول
٭حضرت شیخ منتخب الدین ۔۔۔۔۔۔ ٥٩٥ھ٭ حضرت شیخ کبیر چشتی احمد آبادی ۔۔۔۔۔۔ ٨٥٨ھ ٭حضرت شیخ نظام الدین عرف الہدیہ ۔۔۔۔۔۔ ٩٩٣ھ ٭حضرت شیخ محمد معروف میاں میر ۔۔۔۔۔۔ ١٠٤٥ھ ٭ حضرت شاہ احمد سعید مجددی دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٧٧ھ ٭خواجہ غلام فرید فاروقی چشتی ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٩ھ٭حضرت پیر دستگیر بالا پیر میاں میر لاہوری ٭حکیم احمد حسین بن بدر الدین عثمانی حنفی الٰہ آبادی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٥٢ھ ٭میاں غلام اللہ شرقپوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٧٧ھ/١٩٥٧ء
٨ ربیع الاول
٭حضرت امام حسن عسکری ۔۔۔۔۔۔ ٢٦٠ھ ٭حضرت سید عثمان شاہ جھولہ لاہوری ۔۔۔۔۔۔ ٩١٢ھ ٭خواجہ فیض اللہ ترابی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٤٥ھ
٩ ربیع الاول
٭جمال الابرار حضرت خواجہ جمال الدین عرف جمن ۔۔۔۔۔۔ ١٩٤٠ھ ٭حضرت شیخ محمد اعظم چشتی احمدآبادی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٤٢ھ ٭حضرت شاہ صفی اللہ سیف الرحمن ۔۔۔۔۔۔ ١٠٨٠ھ ٭حضرت سید عبدالقادر بخاری ۔۔۔۔۔۔ ١٠٥٠ھ ٭حضرت عبدالکریم بربری ۔۔۔۔۔۔ ١١٤٥ھ ٭حضرت شیخ محمد معصوم سر ہندی بن امام ربانی مجدد الف ثانی
١٠ ربیع الاول
٭حضرت سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ، ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔ ٩ھ ٭شیخ الاسلام حضرت تقی الدین السبکی الشافعی (آٹھویں صدی ہجری کے معاون مجدد، ابن تیمیہ کا زبردست علمی ردّ کرنے والے) ۔۔۔۔۔۔ ٧٦٥ھ ٭حضرت شیخ عبداللہ ٹھٹھوی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٣٧ھ ٭حضرت پیر مکی ٭حضرت داتا ملک جمال بلواروی ٭شیخ یعقوب دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٢٤ھ
١١ ربیع الاول
٭حضرت امام المسلمین سیدناابو محمد حسن بن علی سبطِ نبی کریم (علیہ الصلوٰۃ والسلام) ۔۔۔۔۔۔ ٥٠ھ٭حضرت شیخ بقری خراسانی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٠٠ھ ٭حضرت سید جھولن شاہ مشہور بہ گھوڑے شاہ ۔۔۔۔۔۔ ١٠٠٣ھ ٭حضرت شاہ ابو المعالی چشتی انبیٹھوی ۔۔۔۔۔۔ ١١١٦ھ ٭حضرتسید سردار علی شاہ شہید ۔۔۔۔۔۔ ١٢٢٨ھ٭حضرت مولوی شاہ حسین بخش لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٧٨ھ ٭حضرت سید حسین اکبر حامانی
١٢ ربیع الاول
٭حضرت سردارِ انبیاء قبلہ اصفیاء سیدنا و مولانا ابو القاسم احمد مجتبی محمد مصطفی صلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَبَارِک وَسَلَّم ۔۔۔۔۔۔ ١١ھ (تاریخ وصال میں مؤرخین کے نزدیک اختلاف ہے، بعض ٢ ، ١٠، ١٧ ربیع الاول لکھتے ہیں)٭حضرت شاہ بدر گیلانی ۔۔۔۔۔۔ ١٦٨ھ ٭حضرت امام احمد بن ابو حنیفہ ۔۔۔۔۔۔ ١٨٩ھ٭حضرت امام المسلمین سید نا احمد بن حنبل ۔۔۔۔۔۔ ٢٤١ھ ٭حضرت عبدالغنی بن عثمان ۔۔۔۔۔۔ ٥٧١ھ٭حضرت خواجہ عبدالحق غجدوانی ۔۔۔۔۔۔ ٥٧٥ھ ٭حضرت سید احمد ختلانی روح المقدس طوسی ۔۔۔۔۔۔ ٩٠٦ھ ٭حضرت شاہ رزاق پاک بغدادی ۔۔۔۔۔۔ ٩٥٧ھ٭حضرت شاہ جمال بغدادی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٠٠ھ ٭حضرت نعمت شاہ دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٢٥ھ٭سید محمدبن احمد حسینی لاج پوری سورتی بھوپالی ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٣ھ ٭حضرت شاہ عبدالعزیز خالص پوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٩ھ٭مولانا عنایت علی بن کرامت علی اسرائیلی دہلوی حیدرآبادی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٢٧ھ ٭حضرت سید محمد حسین شاہ علی پوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٨١ھ ٭حضرت خواجہ صوفی نواب الدین
١٣ ربیع الاول
٭حضرت ابو الفتح جونپوری ۔۔۔۔۔۔ ٨٥٨ھ ٭حضرت شیخ شریف شہاب الدین ابو العباس احمد بدوی ۔۔۔۔۔۔ ٢٧٥ھ ٭حضرت خواجہ مخدوم علاؤلدین علی احمد صابر کلیری ۔۔۔۔۔۔ ٦٩٤ھ ٭حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیا ۔۔۔۔۔۔ ٧٧٥ھ ٭حضرت بندگی ابو المکارم اسمٰعیل چشتی ۔۔۔۔۔۔ ٨٦٠ھ ٭حضرت سید محمد اسمٰعیل بغدادی ۔۔۔۔۔۔ ٩٠٥ھ ٭حضرت شاہ عاشق محمد قلندر ۔۔۔۔۔۔ ٩٨٩ھ٭حضرت شیخ دانیال خضری جونپوری ۔۔۔۔۔۔ ٩٩٤ھ ٭حضرت سید دوست محمد جذابی ۔۔۔۔۔۔ ١١٤٧ھ ٭حضرت سیدنا موسیٰ قادری
١٤ ربیع الاول
٭حضرت سید عبداللہ حنبلی ۔۔۔۔۔۔ ٤٧٣ھ٭حضرت عبدالصمد مکی ۔۔۔۔۔۔ ٦٤٨ھ ٭حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ۔۔۔۔۔۔ ٦٣٢ھ٭حضرت شیخ محمد عیسیٰ جونپوری ۔۔۔۔۔۔ ٨٧٠ھ ٭حضرت شیخ بہورے بن قاضی بڈھن ۔۔۔۔۔۔ ٩١٥ھ ٭حضرت خواجہ ضیاء اللہ مجددی کشمیری ٭حضرت شیخ مصطفی رفیقی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٩٤ھ
١٥ ربیع الاول
٭ حضرت ابو عبداللہ محمد جوئی خراسانی ۔۔۔۔۔۔ ٥٣٠ھ٭حضرت ابو علی بن مسلم عراقی ۔۔۔۔۔۔ ٥٩٤ھ ٭حضرت شمس الدین صحرائی سمرقندی ۔۔۔۔۔۔ ٨٩٩ھ٭حضرت خواجہ محمد ہاشم وہیدی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٤٦ھ ٭مفتی محمد ابراہیم بدایونی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٧٦ھ ٭قاضی عبیداللہ بن صبغۃ اللہ مدراسی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٤٦ھ٭ مولوی غلام محمد بن خان محمد حنفی کوٹی فتح پوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٠١ھ
١٦ ربیع الاول
٭حضرت شیخ ابو عبداللہ عثمان مکی ۔۔۔۔۔۔ ٣٩٧ھ ٭حضرت شاہ فتح محمد سلطان العارفین ۔۔۔۔۔۔ ٧٨٧ھ٭حضرت سیدی ابو عبداللہ محمد بن سلیمان جزولی (مصنف دلائل الخیرات) ۔۔۔۔۔۔ ٨٧٠ھ٭حضرت شیخ سعد الدین چشتی خیر آبادی ۔۔۔۔۔۔ ٩٢٢ھ ٭حضرت شاہ ابو المعالی لاہوری ۔۔۔۔۔۔ ١٠٢٤ھ ٭حضرت سید ابو المعالی خیر الدین کرمانی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٢٤ھ ٭حضرت ولی محمد عیسٰی کشود ۔۔۔۔۔۔ ١١٠٣ھ ٭حضرت شاہ درگاہی فتح پوری ۔۔۔۔۔۔ ١٢٠٢ھ٭حضرت شاہ لطیف کرشکی
١٧ ربیع الاول
٭حضرت شیخ عبود بزازی ۔۔۔۔۔۔ ٢٠٠ھ ٭حضرت ابو عمر و دمشقی اسفرائینی ۔۔۔۔۔۔ ٣٢٠ھ ٭حضرت سید محمد مورث ۔۔۔۔۔۔ ٤١٥ھ ٭حضرت ابراہیم طاقی مرشدآبادی ۔۔۔۔۔۔ ٥٦٥ھ ٭حضرت شاہ عبدالرحیم بن عبدالسلام ہراتی ۔۔۔۔۔۔ ٥٩٧ھ ٭حضرت ابو الخیر خواجہ محمود ففنوی بخاری ۔۔۔۔۔۔ ٧١٥ھ ٭حضرت لال قطب قلندرملتانی ۔۔۔۔۔۔ ٧٢٥ھ ٭حضرت دیوان محمد یونس ۔۔۔۔۔۔ ٧٥٦ھ٭حضرت شیخ محمود چشتی ۔۔۔۔۔۔ ٨٩٧ھ٭حضرت شاہ لشکر محمد عارف ۔۔۔۔۔۔ ٩٠١ھ٭حضرت شیخ سعد بن احمد مقری ۔۔۔۔۔۔ ٩٢٧ھ٭حضرت سید آل احمد اچھے میاں مارہروی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٣٥ھ ٭حضرت تاج الدین عبدالرزاق ۔۔۔۔۔۔ ٦٥٤ھ ٭حضرت شاہ ابو المعالی قادری ٭حضرت شاہ محمد غوث لاہوری
١٨ ربیع الاول
٭حضرت مخدوم شیخ عبدالقادر ثانی ۔۔۔۔۔۔ ٩٤٠ھ٭حضرت سید عبدالقادر لاہوری ۔۔۔۔۔۔ ٩٤٢ھ ٭ حضرت سلطان شاہ قندھاری
١٩ ربیع الاول
٭حضرت خواجہ شبلی پانی پتی ۔۔۔۔۔۔ ٨٥٢ھ ٭حضرت شیخ عبدالجلیل لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ ١٠١٦ھ ٭مولوی غلام قادر چشتی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٢٧ھ
٢٠ ربیع الاول
٭حضرت خواجہ علاء الدین عطار ۔۔۔۔۔۔ ٨٠٢ھ ٭حضرت شاہ رزق اللہ قنوجی ۔۔۔۔۔۔ ٩٨٩ھ٭ مولانا غلام نبی اللہی حنفی نقشبندی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٠٠ھ
٢١ ربیع الاول
٭حضرت اخون سالار دہ رومی ۔۔۔۔۔۔ ٧٠٥ھ٭حضرت شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی (گیارہویں صدی کے مجدد) ۔۔۔۔۔۔ ١٠٥٢ھ٭حضرت شاہ افہام اللہ چشتی صفی پوری ۔۔۔۔۔۔ ١١٩٦ھ ٭حضرت شاہ حسین عطا کریمی چشتی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٩٧ھ ٭حضرت قاری شاہ عبد الکریم نصیر پور گلاں، ٭حضرت شاہ عبد الرحیم
٢٢ ربیع الاول
٭حضرت شیخ حاجی یکتاش ولی عرف شیخ عدی طہر بن موسیٰ برقی ۔۔۔۔۔۔ ٣٥٩ھ ٭حضرت ابو القاسم عبدالکریم قشیری ۔۔۔۔۔۔ ٤٦٥ھ ٭حضرت محی الدین ابو نصر نبیرہ غوثِ الاعظم ۔۔۔۔۔۔ ٦٥٦ھ ٭ حضرت شیخ عمر یاغستانی ۔۔۔۔۔۔ ٦٩٨ھ ٭حضرت شیخ ابو حاکم حمید الدین قریشی ہنکاری ۔۔۔۔۔۔ ٧٣٧ھ ٭حضرت شیخ سعد اللہ ترک بخاری ۔۔۔۔۔۔ ٩٢٨ھ ٭حضرت حاجی محمد سندھی ۔۔۔۔۔۔ ١١٤٧ھ ٭شیخ طریقت فضل الرحمن گنج مراد آبادی ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٣ھ
٢٣ ربیع الاول
٭حضرت شیخ الاسلام شیخ سعد اللہ کمنددری فراز لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ ٨٢٩ھ ٭سلطان العلماء حضرت مولانا نور الحق فرنگی محلی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٨٣ھ
٢٤ ربیع الاول
٭حضرت شیخ حسن طاہر دہلوی ۔۔۔۔۔۔ ٩٠٩ھ٭حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی ۔۔۔۔۔۔ ١١٤٢ھ/١٧٢٩ئ
٢٥ ربیع الاول
٭حضرت شاہ اعلی عبدالسلام پانی پتی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٣٣ھ
٢٦ ربیع الاول
٭حضرت سید علاؤالدین لاہوری ۔۔۔۔۔۔ ٨٧٧ ٭حضرت غوث علی شاہ قلندر ۔۔۔۔۔۔ ١٢٩٧ھ ٭حضرت غوث علی شاہ قادری ۔۔۔۔۔۔ ١٢٩٨ھ٭حضرت شیخ سید میراں حسین زنجانی ٭حضرت میاں عبدالبصیر عرف اللہ ہُو میاں
٢٧ ربیع الاول
٭حضرت شیخ ابو نصر صیلادی کوفی ۔۔۔۔۔۔ ٢٧٧ھ٭ حضرت ابو اسحق خواص ۔۔۔۔۔۔ ٢٩١ھ٭حضرت شمس الدین محمد بن علی تبریزی ۔۔۔۔۔۔ ٦٤٥ھ ٭حضرت شیخ یٰس مغربی (حجام) ٦٧٧ھ٭حضرت شیخ عباس نیشا پوری٭حضرت سید احمد شاہ کوہاٹی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٥٠ھ ٭حضرت سیدنا محی الدین ابو نصر ٭حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر ٭حضرت برہان الملت مولانا برہان الحق جبل پوری (خلیفہ اعلیٰ حضرت) ٭محترم صالح سراج الدین بن عثمان حنفی نقشبندی ڈیروی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٣
٢٨ ربیع الاول
٭شیخ داؤد طائی (تلمیذ امام اعظم ابو حنیفہ) ٭حضرت خواجہ محمد باغبان غزنوی ۔۔۔۔۔۔ ٦٧٤ھ ٭حضرت علامہ محمد شریف نوری قصوری ۔۔۔۔۔۔ ١٣٩٢ھ ٭پیر غلام محی الدین بزمان شریف ۔۔۔۔۔۔ ١٣٩٥ھ / ١٩٧٥ء
٢٩ ربیع الاول
٭حضرت ابو عثمان سعید بن اسمٰعیل حیری ۔۔۔۔۔۔ ٢٩٨ھ ٭حضرت خواجہ شیخ محمد گجراتی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٤٠ھ ٭حضرت شمس الدین عرف محمد قطب اسرار الواحدیت احمد آبادی ۔۔۔۔۔۔ ١٠٩٩ھ ٭حضرت شیخ محمد حیات گنگوہی ۔۔۔۔۔۔ ١١١٣ھ٭حضرت خواجہ عبید اللہ احرار شاشی ۔۔۔۔۔۔ ٨٩٥ھ
٣٠ ربیع الاول
٭حضرت شیخ ابو الحسن سمنون بن محب ۔۔۔۔۔۔ ٢٩٨ھ ٭حضرت خواجہ ناصر الدین عبید اللہ احرار شاشی ۔۔۔۔۔۔ ٨٩٥ھ ٭سید نذیر احمد سہسوانی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٠٩ھ
— — —
تحقیق: علامہ نسیم احمد صدیقی مدظلہ عالی
منجانب: انجمن ضیائے طیبہ ، کراچی ، پاکستان