اسلامی سال کا دسواں
مہینہ ۔۔۔
شوال المکرم
شوال کی وجہ تسمیہ:اسلامی سال کے دسویں مہینے کا نام شوال المکرم ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ''شَول ''سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا) ہے۔ اس مہینہ میں عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے۔ اس لئے اس کا نام شوال رکھا گیا۔
اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے جس کو یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے۔ اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا فرمائی۔ اور اسی روز اللہ تبارک و تعالیٰ نے درختِ طوبیٰ پیدا کیا۔ اور اسی دن کو اللہ عزوجل نے سیدنا حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وحی کے لئے منتخب فرمایا۔ اور اسی دن میں فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی تھی۔ (فضائل ایام و الشہور ، صفحہ ٤٤٣،غنیہ الطالبین صفحہ٤٠٥، مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٩٣)
اور اسی مہینہ کی چوتھی تاریخ کو سید العالمین رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کےلئے نکلے تھے اور اسی ماہ کی پندرہویں تاریخ کو اُحد کی لڑائی ہوئی۔ جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوئے تھے اور اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخرِ ماہ تک جتنے دن ہیں وہ قوم عاد کے لئے منحوس دن تھے جن میں اللہ جل شانہ، نے قوم عاد کو ہلاک فرمایا تھا۔ (فضائل ایام والشہور صفحہ ٤٤٤، بحوالہ عجائب المخلوقات صفحہ ٤٦)
یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے (یعنی حج کی نیت سے آغاز ِسفر) اسے شَہْرُ الْفِطْر بھی کہتے ہیں اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشش کا مژدہ سناتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
اِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِہِمْ یَعْنِیْ یَوْمَ فِطْرِہِمْ بَاہـٰی بِہِمْ مَلَائِکَتَہ، فَقَالَ مَاجَزَآءُ اَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَہ، قَالُوْرَبَّنَا جَزَآءُ ہ، اَنْ یُّوَفّٰی اَجْرُہ، قَالَ مَلَائِکَتِیْ عَبِیْدِیْ وَاِمَائِیْ قَضَوْ فَرِیْضَتِیْ عَلَیْہِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ اِلَی الدُّعَآءِ وَ عِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ وَکَرَمِیْ وَ عُلُوِّیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ لَاُجِیْبَنَّہُمْ فَیَقُوْلُ ارْجِعُوْا قَدْغَفَرْتُ لَکُمْ وَ بدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّہُمْ ۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان (مشکوٰۃ صفحہ ١٨٣)
جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن ۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کردیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کیلئے پکارتے ہوئے ۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا ۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہِ رمضان میں روزے رکھے، عید الفطرکی رات میں پورا پورا اجر عطا فرمادیتا ہے اورعید کی صبح فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور ہر گلی، کوچہ اور بازار میں اعلان کردو (اس آواز کو جن و انس کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں! اپنے رب کی طرف بڑھو وہ تمہاری تھوڑی نماز کو قبول کرکے بڑا اجر عطا فرماتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے پھر جب لوگ عید گاہ روانہ ہوجاتے ہیں اور وہاں نماز سے فارغ ہوکر دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا اور کسی گناہ کو بغیر معاف کئے نہیں چھوڑتا اور لوگ اپنے گھروں کو ''مغفور'' ہو کر لوٹتے ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٤٠٥)
عید کے دن شیطان کا رونا
حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہر عید کے دن ابلیس چلا کر روتا ہے ۔ دوسرے شیاطین اس کے پاس جمع ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں : اے ہمارے سردار آپ کیوں ناراض ہیں ؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو معاف کردیا۔ اب تم پر لازم ہے کہ انہیں شہوات و لذّات میں ڈال کر غافل کردو (مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٩٣)
عید کو عید اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن اپنے بندوں کی طرف فرحت و شادمانی باربار عطا کرتاہے یعنی عید اور عود ہم معنی ہیں ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو منافع، احسانات اور انعامات حاصل ہوتے ہیں یعنی عید عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے یا عید کے دن، بندہ چونکہ گریہ و زاری کی طرف لوٹتا ہے اور اس کے عوض اللہ تعالیٰ بخشش و عطا کی جانب رجوع فرماتا ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ بندہ اطاعت الٰہی سے اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتا اور فرض کے بعد سنت کی طرف پلٹتا ہے، ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد ماہ شوال کے چھ روزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اسلئے اس کو عید کہتے ہیں عید کی وجہ تسمیہ کے متعلق بعض علماء کا کہنا ہے کہ عید کو اس لئے عید کہا گیا ہے کہ اس دن مسلمانوں سے کہا جاتا ہے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) کہ اب تم مغفور ہو کر اپنے گھروں اور مقامات کو لوٹ جاؤ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اس کو عید اس لئے کہا گیا کہ اس میں وعدہ و وعید کا ذکر ہے ، باندی اور غلام کی آزادی کا دن ہے، حق تعالیٰ اس دن اپنی قریب اور بعید مخلوق کی طرف توجہ فرماتا ہے ، کمزور و ناتواں بندے اپنے رب کے سامنے گناہوں سے توبہ اور رجوع کرتے ہیں ۔ (غنیہ الطالبین صفحہ٤٠٤ اور ٤٠٥)
عید منانے کا اسلامی طریقہ
عید الفطر کے مستحب کام :
(١) حجامت بنوانا (٢) ناخن ترشوانا (٣) غسل کرنا (٤) مسواک کرنا (٥) اچھے کپڑے پہننا نیا ہو تو بہتر ورنہ دھلا ہوا ہو ۔ (٦) ساڑھے چار ماشہ چاندی کی انگوٹھی پہننا ۔ (٧) خوشبو لگانا۔ (٨) فجرکی نماز محلہ کی مسجد میں ادا کرنا۔ (٩) نبی کریم اکی بارگاہ میں بصد خلوص درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا (١٠) عید گاہ میں جلدی جانا (١١) عید گاہ کو پیدل جانا (١٢) واپسی پر دوسرا راستہ اختیار کرناراستے میں تکبیرتشریق پڑھتے ہوئے جانا (١٣) نمازعید کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھالینا۔ (١٤) تین یا پانچ یا سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھالے۔ نماز سے پہلے کچھ نہ کھایا تو گنہگار نہ ہوگا مگر عشاء تک نہ کھایا تو گنہگار بھی ہوگا اورعتاب بھی کیا جائے گا۔ (١٥) نماز عید کے بعد معانقہ و مصافحہ کرنا اور رمضان کی کامیابیوں پر مبارکباد اور عید کی مبارکباد دینا۔ (١٦) سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ ٣٠٠ مرتبہ پڑھنا بے حد اجر و ثواب کا باعث ہے۔
عید کے دن کا انمول وظیفہ:
حضور اکرم، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : جس نے عید کے دن تین سو بار یہ ورد پڑھا سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہ (اللہ پاک ہے اور اس کی حمد ہے) پھر اس کا ثواب تمام مسلمان مُردوں کو بخش دیا، تو ہر قبر میں ایک ہزارا نوار داخل ہوں گے اور جب یہ آدمی فوت ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی قبر میں بھی ایک ہزارا نوار داخل کرے گا۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٩٢)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عید:
حضرت ِ جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نمازیں ادا کی ہیں اور ہر دفعہ انہیں اذان اور اقامت کے بغیر ہی ادا کیا ۔ (مسلم شریف )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت شریفہ تھی کہ عید کی نماز ہمیشہ جامع مسجد کے باہر یا کسی اور جگہ کھلے میدان میں پڑھنے کا حکم دیتے، البتہ ایک دفعہ جب بارش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ہی نماز ادا کرلی۔ (بخاری شریف)
حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید گاہ کیلئے روانہ ہوتے تو راستے میں اور نمازِ عید شروع کرنے سے قبل تک تکبیر پڑھتے رہتے ، اسے بلند آواز سے پڑھتے، اور واپس ہمیشہ دوسرے راستہ سے آتے، لیکن واپسی کے وقت تکبیر نہیں پڑھتے۔ (بخاری شریف، سننِ کبریٰ بیہقی)
رسول اکرم محبوبِ معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالی عنہ کو (جب وہ نجران میں تھے ) خط لکھا کہ عید الاضحی کی نماز جلدی پڑھاؤ اور عید الفطر کی دیر سے اور اس کے بعد لوگوں کو وعظ و نصیحت کرو ۔ (مسند امام شافعی)
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی عید:
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے کو عید کے دن دیکھا، اس کی قمیض پرانی تھی، تو رو پڑے۔ اس نے کہا: آپ کیوں روتے ہیں ؟ فرمایا: اے بیٹا ! مجھے خطرہ ہے عید کے دن تیرا دل ٹوٹ جائے گا، جب بچے تمہیں یہ پُرانی قمیض پہنے دیکھیں گے۔ اس نے کہا: دل اس کا ٹوٹتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہ ہو، یا اس نے ماں باپ کی نافرمانی کی ہو اور مجھے امید ہے کہ آپ کی رضا کے باعث اللہ تعالیٰ مجھے سے راضی ہوگا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ روپڑے اور اسے سینہ سے لگالیا اور اس کے لیے دعا کی۔ (مکاشفۃ القلوب ، صفحہ ٦٩٣)
عید کے دن حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا آپ اس وقت بھوسی کی روٹی کھارہے تھے ، اس نے عرض کیا کہ آج عید کا دن ہے اور آپ چوکر (بھوسی) کی روٹی کھارہے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا آج عید تو اس کی ہے جس کا روزہ قبول ہو، جس کی محنت مشکور ہو، اور جس کے گناہ بخش دیے گئے ہوں ۔ آج کا دن بھی ہمارے لئے عید کا دن ہے کل بھی ہمارے لئے عید ہوگی اور ہر دن ہمارے لئے عید کا دن ہے جس دن ہم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کریں ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٤١١)
اہم نکتہ:
عید کی نماز سے فارغ ہوکر لوگ عید گاہ سے لوٹتے ہیں ، کوئی گھر کو جاتا ہے ، کوئی دکان کو اور کوئی مسجد کو تو اس وقت یہ حالت دیکھ کر مسلمان کو چاہیے کہ اس منظر اور کیفیت کو یاد کرے کہ اس طرح لوگ قیامت میں جزا و سزا دینے والے بادشاہ کے حضور سے جنت اور دوزخ کی طرف لوٹ کر جائیں گے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ (پارہ ٢٥،سورۃ شوریٰ، آیت ٧)
اور تم ڈراؤ اکٹھے ہونے کے دن سے جس میں کچھ شک نہیں ، ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ میں (ترجمہ کنز الایمان ، غنیہ الطالبین صفحہ ٤١٢)
اسلامی تہوار مثالی معاشرے
کے قیام کی ضمانت
اقوامِ عالم مختلف مواقع پر خوشیوں کے اظہار کیلئے اجتماعی طور پر تہوار مناتی ہیں ، یہ تہوار مذہبی روایات اور قومی جذبات کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ ایک امر مسلّمہ ہے کہ اسلامی تہوار محض تفریحِ طبع کیلئے منعقد نہیں ہوتے بلکہ اسلامی معاشرے کو خوشحالی اور فلاحی بنانے کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ مختلف ادیان و مذاہب کے ماننے والے جتنے تہوار مناتے ہیں اسے ہر طرح کے مادّی سازو سامان سے معمور رکھتے ہیں ۔عیش و عشرت، راگ و موسیقی، نغمہ و سرود، شراب و شباب اور میلوں تماشوں میں محو و مگن ہوتے ہیں ۔ بحمدہ تعالیٰ مسلمانوں کے تمام تہوار ، دینی شعار کی طرح صرف ذاتی خوشی کیلئے نہیں بلکہ اللہ ل کی رضا کیلئے ہوتے ہیں ، ان تہواروں کا انعقاد اللہ ل اور اس کے پیارے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے احکام پر عمل کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اسی لیے تہوار کاآغاز ہی اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اعلان اور اس کے ذکر و اذکار سے ہوتا ہے۔ اسلامی تہوار غم گساری بھی سکھاتا ہے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے معاشی استحکام کیلئے ایک متمول مسلمان اپنا کردار ادا کرے۔ بین المسلمین مواخات کے رشتے اسلامی تہوار کے ذریعے مضبوط اور مربوط ہوتے ہیں ۔ مسلمانوں کا باہم ایک دوسرے سے معانقہ کرنا ، مصافحہ کرنا ، رمضان کی مبارکباد پیش کرنا ، تراویح و تسبیحات کی قبولیت کی ایک دوسرے کے حق میں دعا کرنا ، ایک دوسرے کے حق میں مغفرت کی دعا کرنا ، تحائف کا تبادلہ کرنا اور طعام کی دعوت دیناوغیرہ، ایک اخلاقی ،مثالی اور فلاحی معاشرے کے قیام کی ضمانت دیتے ہیں ۔یہ معمولات و عادات زندہ مسلمانوں کے درمیان ہی نظر نہیں آتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے تہوار اپنے پیش رو مرحومین کو بھی نظر انداز نہیں کرتے ، نماز ِ عید کی ادائیگی کے بعد اور برادرانِ اسلام سے ملاقات کے بعد قبرستان جانا اور مسلمان مرحومین کے حق میں دعائے مغفرت کرنا ، سنّت ِ متواترہ ہے۔
حضور غوث الثقلین شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں ، ''مسلمان کی عید ، طاعت و بندگی کی علامات کے ظاہر ہونے سے ہے، گناہوں اور خطاؤں سے دوری کی بنیاد پر ہے ، سیأات کے عوض حسنات (نیکیوں ) کے حصول اور درجات کی بلندی کی بشارت ملنے پر ہے ، اللہ تعالیٰ جل شانہ، کی طرف سے خلعتیں ، بخششیں اور کرامتیں حاصل ہونے کے باعث ہے، مسلمان کو نورِ ایمان سے معمور سینہ کی روشنی ، قوتِ یقین اور دوسری نمایاں علامات کے سبب دل میں سکون پیدا ہوتا ہے پھر دل کے اتھاہ سمندر سے علوم و فنون اور حکمتوں کا بیان زبان پر رواں ہوجانے سے عید کی حقیقی مسرتیں حاصل ہوتی ہیں ۔'' (غنیہ الطالبین ، صفحہ ٤١٠ ، ٤١١)
شوال کے چھ روزے:
شوال میں (عید کے دوسرے دن سے ) چھ دن روزے رکھنا بڑا ثواب ہے جس مسلمان نے رمضان المبارک اور ماہِ شوال میں چھ ٦ روزے رکھے تو اس نے گویا سارے سال کے روزے رکھے یعنی پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے۔ سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ، سے روایت ہے حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ اَتْبَعَہ، سِتًّا مِّنْ شَوَّالِ کَانَ کَصِیَامِ الدَّہْرِ۔ رواہ البخاری و مسلم (مشکوٰۃ صفحہ ١٧٩)
جس آدمی نے رمضان شریف کے روزے رکھے۔ اور پھر ان کے ساتھ چھ روزے شوال کے ملائے تو اس نے گویا تمام عمر روزے رکھے۔
نوٹ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ''تمام عمر روزے رکھنے'' کا مطلب یہ ہے کہ رمضان شریف کے علاوہ ہر ماہِ شوال میں چھ ٦ روزے رکھے جائیں تو تمام عمر روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔ اگر اس نے صرف ایک ہی سال یہ روزے رکھے تو سال کے روزوں کا ثواب ملے گا۔ پھر یہ روزے اکٹھے رکھے جائیں یا الگ الگ ، ہر طرح جائز ہیں مگر بہتر یہ ہے کہ ان کو متفرق طور پر رکھا جائے۔ یہی حنفی مذہب ہے۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٤٧بحوالہ لمعات حاشیہ مشکوۃ صفحہ ١٧٩)
شوال میں ایامِ بیض کے روزے
علاوہ ازیں ماہِ شوال میں متذکرہ چھ ٦ روزوں کے علاوہ ١٣، ١٤، ١٥ چاند کی تاریخوں (ایامِ بیض) میں اسی طرح روزے رکھے جاسکتے ہیں جیسا کہ دیگر مہینوں میں انہی ایام میں رکھتے ہیں ۔اس حوالے سے صحاح ستّہ (بخاری ، مسلم ، ابو داؤد، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ شریف ) میں کئی روایات ملتی ہیں ۔
ماہِ شوال میں وقوع پذیر
ہونے والے اہم واقعات
٭ پہلی نماز عید ۔۔۔۔۔۔٢ہجری ٭ غزوہ بنی قینقاع۔۔۔۔۔۔٢ہجری ٭ غزوہ احد۔۔۔۔۔۔، ٣ہجری ٭ شہادت حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣ ہجری٭ غزوہ خندق (الاحزاب) ۔۔۔۔۔۔٥ہجری ٭ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے "طائف" کا محاصرہ فرمایا۔۔۔۔۔۔٨ھ٭ وفات حضرت ابو قحافہص (والد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ ) ۔۔۔۔۔۔١٤ ہجری ٭ جنگ قادسیہ۔۔۔۔۔۔١٥ہجری ٭ فتح بیت المقدس شریف۔۔۔۔۔۔١٦ ہجری ٭ امّ کلثوم بنت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا نکاح حضرت ِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے۔۔۔۔۔۔١٧ ہجری٭ وفات ہرقل قیصرروم۔۔۔۔۔۔٢٠ ہجری ٭ وفات ابن کعب۔۔۔۔۔۔٢٢ہجری ٭ تکمیل فتح آذر بائیجان۔۔۔۔۔۔٢٨ہجری ٭ وفات الحکم۔۔۔۔۔۔٣١ہجری ٭ وفات عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٢ہجری ٭ امارت ابو موسیٰ اشعری بر کوفہ۔۔۔۔۔۔٣٤ہجری ٭ وفات حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٦ہجری ٭ وفات صہیب رومی ص۔۔۔۔۔۔ ٣٨ہجری٭ وفات عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٤ہجری ٭ ابتداء فتوحات بخارا تاشقند۔۔۔۔۔۔٥٤ہجری ٭ فتح خوارزم۔۔۔۔۔۔٦٢ ہجری ٭ قتل مختار ثقفی۔۔۔۔۔۔٦٧ہجری ٭ وفات ابو واقد اللیشی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٦٨ہجری ٭ شام میں طاعون کی وبا۔۔۔۔۔۔٧٩ہجری ٭ وفات خلیفہ عبدالملک و خلافت ولید۔۔۔۔۔۔٨٥ہجری ٭ وفات عتبہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٨٧ہجری ٭ حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ کی زہر سے شہادت۔۔۔۔۔۔٩٤ہجری/جولائی ٧١٣ء ٭ وفات حجاج بن یوسف ثقفی۔۔۔۔۔۔٩٥ہجری ٭ وفات ابو عثمان النہدی۔۔۔۔۔۔١٠٠ہجری ٭ وفات سکینہ بنت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔۔۔۔۔۔١١٧ہجری ٭ وفات حافظ قتادہ محدث۔۔۔۔۔۔١١٨ہجری ٭ وفات معاویہ بن ہشام ۔۔۔۔۔۔١١٩ہجری ٭ وفات امیر مدینہ ابو بکر الانصاری ۔۔۔۔۔۔١٢٠ہجری ٭ وفات یحییٰ النحوی۔۔۔۔۔۔١٢٨ہجری ٭ وفات قاضی دمشق یزید بن عبداللہ بن عبدالملک۔۔۔۔۔۔١٣٠ہجری ٭ وفاتِ فضیلۃ الشیخ حضرت ایوب السختیانی تابعی علیہ الرحمۃ۔۔۔۔۔۔١٣١ہجری ٭ اندلس میں اموی حکومت ۔۔۔۔۔۔١٣٨ہجری/مارچ ٧٥٦ء ٭ وفات حجاج بن ارطاط۔۔۔۔۔۔١٤٩ہجری ٭ قتل عبداللہ الاشتر۔۔۔۔۔۔١٥١ہجری ٭ بغداد میں قصر الخلد کی تعمیر۔۔۔۔۔۔ ١٥٧ہجری ٭ وفات ابو الحرث الفقیہہ۔۔۔۔۔۔١٥٩ہجری ٭ وفات قاضی ابو بکر بن ابی سیرہ ۔۔۔۔۔۔١٦٢ہجری ٭ وفات خالد برمکی۔۔۔۔۔۔١٦٥ہجری ٭ وفات سلیمان بن بلا ل علیہ الرحمۃ۔۔۔۔۔۔١٧٢ہجری ٭ وفات فضل بن یحییٰ برمکی۔۔۔۔۔۔١٩٢ہجری ٭ وفات فقیہہ اندلس زیاد۔۔۔۔۔۔١٩٣ہجری ٭ وفات عبدالرحمن المحاربی۔۔۔۔۔۔١٩٥ہجری ٭ حضرت علامہ معن بن عیسیٰ (ابو یحییٰ) تلمیذ امام مالک ۔۔۔۔۔۔١٩٨ھ ٭ وفات یونس بن بکیر۔۔۔۔۔۔١٩٩ہجری ٭ اعلان ولی عہدی امام علی رضا ابن امام موسی کاظم علیہ الرحمۃ۔۔۔۔۔۔٢٠١ہجری ٭ وفات حافظ ابو داؤد طیالسی۔۔۔۔۔۔٢٠٤ہجری ٭ بنیادِ دولتِ طاہریہ۔۔۔۔۔۔٢٠٥ہجری ٭ وفات امام فراء نحوی۔۔۔۔۔۔٢٠٧ہجری ٭ وفات عبدالرزاق بن الہمام صنعانی۔۔۔۔۔۔٢١١ہجری ٭ مازیار کی بغاوت۔۔۔۔۔۔٢٢٤ہجری ٭ وفات الحافظ ابو الولید الطیالسی۔۔۔۔۔۔٢٢٧ہجری ٭ وفات لقیم بن حماد۔۔۔۔۔۔٢٢٨ہجری ٭ وفات الحکم القنطری۔۔۔۔۔۔٢٣٢ہجری ٭ وفات حاتم الاصم الزاہد۔۔۔۔۔۔٢٣٧ہجری ٭ مروہ میں وبائی زکام ۔۔۔۔۔۔ ٢٤٠ہجری ٭ قتل متوکل ، خلافتِ المنتصر۔۔۔۔۔۔٢٤٧ہجری ٭ وفات امام بخاری علیہ الرحمۃ۔۔۔۔۔۔٢٥٦ ہجری٭ رومیوں کا ملطیہ پر حملہ۔۔۔۔۔۔٢٥٩ہجری ٭ وفات شیخ الاطباء حسین الشعرانی۔۔۔۔۔۔٢٦٠ہجری ٭ وفات بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ۔۔۔۔۔۔٢٦١ہجری ٭ وفات یعقوب صفار بانی حکومت صفاریہ ۔۔۔۔۔۔٢٦٦ہجری ٭ وفات امام حضرت ابو داؤد (صاحبِ سنن) ١٦شوال ،٢٧٥ہجری ٭ وفات حضرت شیخ ابو سعید الخراز ۔۔۔۔۔۔٢٨٦ہجری ٭ وفات فقیہہ عثمان الانماطی۔۔۔۔۔۔٢٨٨ہجری ٭ وفات ابو العباس الہروی۔۔۔۔۔۔٢٩٢ہجری ٭ وفات قاضی یوسف الازدی۔۔۔۔۔۔٢٩٧ہجری ٭ وفات حضرت جنید بغدادی ۔۔۔۔۔۔ ٢٩٨ ہجری ٭ وفات فقیہہ مغرب ابو عثمان الحداد۔۔۔۔۔۔٣٠٢ہجری ٭ وفات ابراہیم الانماطی المفسر ۔۔۔۔۔۔ ٣٠٣ ہجری ٭ وفات امام ابن جریر طبری مؤرخ و مفسر۔۔۔۔۔۔٣١٠ہجری ٭ دریائے دجلہ منجمد ہوگیا ۔۔۔۔۔۔ ٣١٤ ہجری ٭ قتل عباسی خلیفہ المقتدر بااللہ و خلافت القاہر البغدادی۔۔۔۔۔۔٢٧شوال،٣٢٠ہجری ٭ بغداد میں شدید بادوباراں ۔۔۔۔۔۔٣٢٧ہجری ٭ وفات ابو بکر ابن الانباری۔۔۔۔۔۔٣٢٨ہجری ٭ وفات اسحق البحرجانی ۔۔۔۔۔۔ ٣٣٧ہجری ٭ خلافت ِ مطیع اللہ میں حجرِ اسود کو ٢٠ سال بعد کعبہ میں واپس لایا گیا۔۔۔۔۔۔ ٣٣٩ہجری٭ وفات المنصور العبیدی۔۔۔۔۔۔٣٤١ہجری ٭ وصال علامہ ابو الحسین عبد الباقی بن قانع ۔۔۔۔۔۔٣٥١ ہجری ٭ وفات حافظ عبدالباقی بن مزروقی ۔۔۔۔۔۔٣٥١ہجری ٭ وفات ابن حبان مشہور محدث۔۔۔۔۔۔٣٥٤ہجری ٭ وفات کافور الا خشیدی (حبشی غلام ، متنبی کا ہمعصر اور مصرو شام کا والی و حاکم) ۔۔۔۔۔۔٣٥٦ہجری ٭ رومیوں کا حمص پر حملہ ۔۔۔۔۔۔٣٥٨ہجری ٭ وفات ابو بکر عبد العزیز الحنبلی ۔۔۔۔۔۔٣٦٣ہجری ٭ قتل عزالدولہ بن معز الدولہ۔۔۔۔۔۔٣٦٧ہجری ٭ وفات عضد الدولہ ابن بویہ ۔۔۔۔۔۔٣٧٢ہجری ٭ ملتان پر جلم بن شیبان قرامطی اسماعیلی کا قبضہ۔۔۔۔۔۔٣٧٣ہجری ٭ وفات ابو احمد العسکری۔۔۔۔۔۔٣٨٢ہجری ٭ وفات الولید الغمری الاندلسی۔۔۔۔۔۔٣٩٢ہجری ٭ وفات (ماہر فلکیات ، ہیت دان ) ابن یونس الصدفی مؤجدِ لوگارتھم۔۔۔۔۔۔٣٩٩ھ ٭ بحالیِ خلافت محمد المہدی ۔۔۔۔۔۔٤٠٠ ہجری ٭ محمود غزنوی کا ملتان پر قبضہ۔۔۔۔۔۔٤٠١ہجری ٭ بحالی سلیمان الاموی الاندلسی ۔۔۔۔۔۔ ٤٠٣ہجری ٭ وفات ابو محمد بن الاکفانی۔۔۔۔۔۔٤٠٥ہجری ٭ وفات امام ابو حامد الاسفراینی (چوتھی صدی کے مجدد) ۔۔۔۔۔۔ ٤٠٦ ہجری ٭ وفات المالینی ۔۔۔۔۔۔٤١٢ہجری ٭ وفات سلطان شرف الدولہ ۔۔۔۔۔۔ ٤١٦ ہجری ٭ وفات محمود غزنوی و تخت نشینی مسعود غزنوی۔۔۔۔۔۔٤٢١ہجری ٭ سلجوقیوں کی حکومت کا آغاز۔۔۔۔۔۔٤٢٩ہجری ٭ وفات ابولحسن مکی صاحبِ اعراب القرآن۔۔۔۔۔۔٤٣٠ہجری ٭ وفات ابو طاہر الغباری ۔۔۔۔۔۔٤٣٢ہجری ٭ وفات حافظ ابو ذر الفقیہہ المالکی ۔۔۔۔۔۔٤٣٤ہجری ٭ وفات سلطان جلال الدولہ ویلمی۔۔۔۔۔۔٤٣٥ہجری ٭ وفات ابو طالب البزاز۔۔۔۔۔۔٤٤٠ ہجری ٭ وفات ابو عمر والدانی۔۔۔۔۔۔٤٤٤ہجری ٭ وفات تاج الائمہ ابو العباس المصری۔۔۔۔۔۔٤٤٥ہجری ٭ وفات ابو عبداللہ بن ماکولا۔۔۔۔۔۔٤٤٧ہجری ٭ وفات ملک شاہ سلجوقی۔۔۔۔۔۔٤٨٥ہجری ٭ وفات المعتمد علی اللہ الاندلسی۔۔۔۔۔۔٤٨٨ہجری ٭ وفات ابو الفوارس الہاشمی۔۔۔۔۔۔٤٩١ہجری ٭ فیروز کوہ میں غوریوں کی ابتداء ۔۔۔۔۔۔٤٩٣ ہجری ٭ مودود والی اندلس کو ایک باطنی نے عید کی نماز میں قتل کردیا۔۔۔۔۔۔٥٠٧ہجری ٭ حکومتِ ارسلان شاہ غزنوی۔۔۔۔۔۔٥٠٨ہجری ٭ وفات علی بن بنہان الکاتب۔۔۔۔۔۔٥١١ہجری ٭ وفات ابو علی بن المہدی۔۔۔۔۔۔٥١٥ ہجری ٭ وفات حسین فراء البغوی (مفسر) ۔۔۔۔۔۔٥١٦ہجری ٭ وفات ابن الفاعوس۔۔۔۔۔۔٥٢١ہجری ٭ الآمر خلیفہ فاطمی ۔۔۔۔۔۔٥٢٤ہجری ٭ وفات سلطان محمود سلجوقی۔۔۔۔۔۔٥٢٥ہجری ٭ وفات ابو بکر بن التبان الواسطی۔۔۔۔۔۔٥٤٤ہجری ٭ وفات ابو الفتوح الطائی۔۔۔۔۔۔٥٥٥ہجری ٭ نور الدین نے فرنگیوں کو قلعات سے نکال دیا۔۔۔۔۔۔٥٦١ہجری ٭ وفات قطب الدین مسعود والی موصل۔۔۔۔۔۔ ٥٦٥ ہجری ٭ وفات علامہ ابو محمد بن الخشاب ۔۔۔۔۔۔٥٦٧ہجری ٭ وفات ابو نزار الحسن النحوی۔۔۔۔۔۔٥٦٨ہجری ٭ وفات نور الدین محمود زنگی ۔۔۔۔۔۔٥٦٩ہجری ٭ وفات حامد ابن ابی الحجر۔۔۔۔۔۔٥٧٠ھ ٭ وفات عمر اُنز حاکم سندھ۔۔۔۔۔۔ ٥٧٣ ہجری ٭ شہاب غوری کا لاہور پر قبضہ۔۔۔۔۔۔٥٨٢ہجری ٭ وفات ابو طاہر التمیمی۔۔۔۔۔۔ ٥٨٧ہجری ٭ وفات شیخ عبدالوہاب جیلانی ۔۔۔۔۔۔٥٩٣ہجری ٭ وفات ابو علی الفارسی ۔۔۔۔۔۔٥٩٤ ہجری ٭ وفات امام فخرالدین رازی ۔۔۔۔۔۔٦٠٦ ہجری ٭ ولادت مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری ۔۔۔۔۔۔٦٦١ ہجری ٭ قتل کافور ملک۔۔۔۔۔۔٧١٦ہجری ٭ وفات برہان الرشیدی ۔۔۔۔۔۔٧٤٩ ہجری ٭ وفات مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری ۔۔۔۔۔۔٧٨٢ہجری ٭ خلافت المعتصم دوبارہ ۔۔۔۔۔۔٧٨٧ ہجری ٭ وفات حضرت خواجہ صوفی کمال خجندی تبریزی۔۔۔۔۔۔٧٩٢ ہجری ٭ وفات الظاہر برقوق ۔۔۔۔۔۔٨٠١ہجری٭ حرم کعبہ میں آگ لگی ۔۔۔۔۔۔٨٠٢ ہجری ٭ وفات قاضی القضاۃ صدر الدین المناوی ۔۔۔۔۔۔٨٠٣ہجری ٭ وفات جمال الدین یوسف الحمودی۔۔۔۔۔۔٨٠٩ہجری ٭ وفات صاحب قاموس مجد الدین الفیروز آبادی ۔۔۔۔۔۔ ٨١٧ ہجری ٭ وفات بدرالدین بن قاضی غازی اسرائیل (معروف صوفی) ۔۔۔۔۔۔ ٨١٩ ہجری ٭ وفات نور الدین بن سلامہ۔۔۔۔۔۔٨٢٨ہجری ٭ وفات ابو بکر محمد بن محمد عاصم مالکی نحوی ۔۔۔۔۔۔١١شوال، ٨٢٩ہجری ٭ وفات تاج الدین محدث بعلبکی۔۔۔۔۔۔٨٣٠ہجری ٭ وفات ابن الرسام الحلبی۔۔۔۔۔۔٨٤٤ہجری ٭ حکومت علاؤالدین عالم شاہ ۔۔۔۔۔۔٨٤٩ہجری ٭ خلافت سلیمان قانونی ۔۔۔۔۔۔٩٢٦ہجری ٭ وفات شیخ زادہ الحنفی ۔۔۔۔۔۔٩٧١ہجری ٭ وفات امام عبدالوہاب الشعرانی۔۔۔۔۔۔٩٧٣ہجری٭ برہان الملک اول نواب اودھ کا والی ہوا ۔۔۔۔۔۔١١٣٣ ہجری ٭ وفات سردار دوست محمد خان بانی ریاست بھوپال۔۔۔۔۔۔١١٣٩ہجری ٭ وفات ارادت خان واضح ۔۔۔۔۔۔١١٥٧ہجری ٭ جنگ پلاسی۔۔۔۔۔۔١١٧٠ہجری ٭ خلافت عبدالحمید اول سلطنتِ عثمانیہ ۔۔۔۔۔۔١١٨٧ہجری ٭ ایران پر قاچاری حکومت کی ابتدا۔۔۔۔۔۔١٢١٠ہجری ٭ طائف پر وہابیوں کا قبضہ ۔۔۔۔۔۔٢٥شوال ، ١٢١٧ہجری/١٨فروری ١٢٠٢ء ٭ وفات عبدالعزیز محدث دہلوی ۔۔۔۔۔۔١٢٣٩ ہجری (مجدد قرن سیز دہم) ٭ ولادت ِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ۔۔۔۔۔۔١١شوال ١٢٧٢ہجری٭ وفات میر انیس (مرثیہ گو شیعہ شاعر) ۔۔۔۔۔۔١٢٩١ہجری ٭ وفات سید جمال الدین افغانی ۔۔۔۔۔۔١٣١٤ہجری ٭ زارِ روس ختم کمیونسٹ حکومت کی ابتداء ۔۔۔۔۔۔١٣٣٥ہجری/جولائی ١٩١٦ء ٭ وفات مولانا شوکت علی ۔۔۔۔۔۔١٣٥٧ہجری /١٩٣٨ء ٭ وفات ابو المحاسن سجاد (بہار) ۔۔۔۔۔۔١٣٥٩ہجری/١٩٤٠ء ٭ وفات خوشی محمد ناظر۔۔۔۔۔۔ ١٣٦٣ ہجری/١٩٤٠ء ٭ وفات حبیب الرحمن خاں شیروانی ۔۔۔۔۔۔ ١٣٦٩ ہجری ٭ وفات مولانا شاہ احمد نورانی ۔۔۔۔۔۔١٦شوال ١٤٢٤ہجری/١١دسمبر ٢٠٠٣ء ٭ عراقی صدر صدام حسین کی تکریت سے گرفتاری ۔۔۔۔۔۔بروز ہفتہ، ١٨شوال، ١٤٢٤ہجری /١٣دسمبر٢٠٠٣ء
شوال المکرم میں وفات پانے
والے مشہور اولیاء و بزرگانِ دین رحمہم اللّٰہ
یکم شوال المکرم
٭ حضرت ابو خذافہ احمد بن اسمعیل سہ
0 comments:
Post a Comment